ابر کے بن دیکھے ہرگز خوش دل مستاں نہ ہو
تیر باراں ہووے مجھ پر جب تلک باراں نہ ہو
میری رسوائی نے تیرے حسن کی کی ہے نمود
جب تلک شبنم نہیں روئے تو گل خنداں نہ ہو
طرز تیری گفتگو کی ہے گواہ مے کشی
بوئے گل اور نشۂ صہبا کبھی پنہاں نہ ہو
شیخ کو وہ جہل ہے سو بار کعبے کے تئیں
جائے اور آئے ولیکن پھر گدھا انساں نہ ہو
ذکر ابروئے بتاں سے کیوں برا مانے ہے شیخ
کیا ہوا کافر تجھے قبلے سے رو گرداں نہ ہو
سچ بتا اے جان عشق و عشق بازاں کیا ہے تو
بن ترے میں اس بدن سا ہوں کہ جس میں جاں نہ ہو
یاں سے جا شیطان زلف یار کو ہم دے چکے
عاشقوں کا دین ہے یہ شیخ کا ایماں نہ ہو
ترک تاز غمزہ کا اس کی یہی ڈر ہے رضاؔ
یہ غم آباد اپنا شہر دل کہیں ویراں نہ ہو

غزل
ابر کے بن دیکھے ہرگز خوش دل مستاں نہ ہو
رضا عظیم آبادی