EN हिंदी
ابر کے بن دیکھے ہرگز خوش دل مستاں نہ ہو | شیح شیری
abr ke bin dekhe hargiz KHush dil-e-mastan na ho

غزل

ابر کے بن دیکھے ہرگز خوش دل مستاں نہ ہو

رضا عظیم آبادی

;

ابر کے بن دیکھے ہرگز خوش دل مستاں نہ ہو
تیر باراں ہووے مجھ پر جب تلک باراں نہ ہو

میری رسوائی نے تیرے حسن کی کی ہے نمود
جب تلک شبنم نہیں روئے تو گل خنداں نہ ہو

طرز تیری گفتگو کی ہے گواہ مے کشی
بوئے گل اور نشۂ صہبا کبھی پنہاں نہ ہو

شیخ کو وہ جہل ہے سو بار کعبے کے تئیں
جائے اور آئے ولیکن پھر گدھا انساں نہ ہو

ذکر ابروئے بتاں سے کیوں برا مانے ہے شیخ
کیا ہوا کافر تجھے قبلے سے رو گرداں نہ ہو

سچ بتا اے جان عشق و عشق بازاں کیا ہے تو
بن ترے میں اس بدن سا ہوں کہ جس میں جاں نہ ہو

یاں سے جا شیطان زلف یار کو ہم دے چکے
عاشقوں کا دین ہے یہ شیخ کا ایماں نہ ہو

ترک تاز غمزہ کا اس کی یہی ڈر ہے رضاؔ
یہ غم آباد اپنا شہر دل کہیں ویراں نہ ہو