ابر بے وجہ نہیں دشت کے اوپر آئے
اک دعا اور کہ بارش کی دعا بر آئے
آنکھ رکھتے ہوئے کچھ بھی نہیں دیکھا ہم نے
ورنہ منزل سے حسیں راہ میں منظر آئے
کوئی امکان کہ جاگے کبھی لوہے کا ضمیر
اور قاتل کی طرف لوٹ کے خنجر آئے
آرزو تھی کہ شجر کو ثمر آور دیکھوں
بور پڑتے ہی مگر صحن میں پتھر آئے
تجھ سے دریا تو گئے چل کے سمندر کی طرف
مجھ سے قطرے کی طرف اڑ کے سمندر آئے
آزمائش ہو شجاعت کی تو پھر ایسے ہو
میں اکیلا ہوں مرے سامنے لشکر آئے
کر دیا دھوپ نے جب شہر کو سایوں کے سپرد
پھر تو دن میں بھی کئی رات کے منظر آئے
غزل
ابر بے وجہ نہیں دشت کے اوپر آئے
مختار جاوید