ابھی ضمیر میں تھوڑی سی جان باقی ہے
ابھی ہمارا کوئی امتحان باقی ہے
ہمارے گھر کو تو اجڑے ہوئے زمانہ ہوا
مگر سنا ہے ابھی وہ مکان باقی ہے
ہماری ان سے جو تھی گفتگو وہ ختم ہوئی
مگر سکوت سا کچھ درمیان باقی ہے
ہمارے ذہن کی بستی میں آگ ایسی لگی
کہ جو تھا خاک ہوا اک دکان باقی ہے
وہ زخم بھر گیا عرصہ ہوا مگر اب تک
ذرا سا درد ذرا سا نشان باقی ہے
ذرا سی بات جو پھیلی تو داستان بنی
وہ بات ختم ہوئی داستان باقی ہے
اب آیا تیر چلانے کا فن تو کیا آیا
ہمارے ہاتھ میں خالی کمان باقی ہے
غزل
ابھی ضمیر میں تھوڑی سی جان باقی ہے
جاوید اختر