EN हिंदी
ابھی وہ کمسن ابھر رہا ہے ابھی ہے اس پر شباب آدھا | شیح شیری
abhi wo kamsin ubhar raha hai abhi hai us par shabab aadha

غزل

ابھی وہ کمسن ابھر رہا ہے ابھی ہے اس پر شباب آدھا

کنور مہیندر سنگھ بیدی سحر

;

ابھی وہ کمسن ابھر رہا ہے ابھی ہے اس پر شباب آدھا
ابھی جگر میں خلش ہے آدھی ابھی ہے مجھ پر عتاب آدھا

حجاب و جلوہ کی کشمکش میں اٹھایا اس نے نقاب آدھا
ادھر ہویدا سحاب آدھا ادھر عیاں ماہتاب آدھا

مرے سوال وصال پر تم نظر جھکا کر کھڑے ہوئے ہو
تمہیں بتاؤ یہ بات کیا ہے سوال پورا جواب آدھا

لپک کے مجھ کو گلے لگایا خدا کی رحمت نے روز محشر
ابھی سنایا تھا محتسب نے مرے گنہ کا حساب آدھا

بجا کہ اب بال تو سیہ ہیں مگر بدن میں سکت نہیں ہے
شباب لایا خضاب لیکن خضاب لایا شباب آدھا

لگا کے لاسے پہ لے کے آیا ہوں شیخ صاحب کو مے کدے تک
اگر یہ دو گھونٹ آج پی لیں ملے گا مجھ کو ثواب آدھا

کبھی ستم ہے کبھی کرم ہے کبھی توجہ کبھی تغافل
یہ صاف ظاہر ہے مجھ پہ اب تک ہوا ہوں میں کامیاب آدھا

کسی کی چشم سرور آور سے اشک عارض پہ ڈھل رہا ہے
اگر شعور نظر ہے دیکھو شراب آدھی گلاب آدھا

پرانے وقتوں کے لوگ خوش ہیں مگر ترقی پسند خاموش
تری غزل نے کیا ہے برپا سحرؔ ابھی انقلاب آدھا