EN हिंदी
ابھی تو کرنا پڑے گا سفر دوبارہ مجھے | شیح شیری
abhi to karna paDega safar dobara mujhe

غزل

ابھی تو کرنا پڑے گا سفر دوبارہ مجھے

ظفر اقبال

;

ابھی تو کرنا پڑے گا سفر دوبارہ مجھے
ابھی کریں نہیں آرام کا اشارہ مجھے

لہو میں آئے گا طوفان تند رات بہ رات
کرے گی موج بلا خیز پارہ پارہ مجھے

بجھا نہیں مرے اندر کا آفتاب ابھی
جلا کے خاک کرے گا یہی شرارہ مجھے

اتار پھینکتا میں بھی یہ تار تار بدن
اسیر خاک ہوں کرنا پڑا گزارہ مجھے

اڑے وہ گرد کہ میں چار سو بکھر جاؤں
غبار میں نظر آئے نہ کوئی چارہ مجھے

مرے حدود میں ہے میرے آس پاس کی دھند
رہا یہ شہر تو اس کا نہیں اجارہ مجھے

سحر ہوئی تو بہت دیر تک دکھائی دیا
غروب ہوتی ہوئی رات کا کنارہ مجھے

مری فضا میں ہے ترتیب کائنات کچھ اور
عجب نہیں جو ترا چاند ہے ستارہ مجھے

نہ چھو سکوں جسے کیا اس کا دیکھنا بھی ظفرؔ
بھلا لگا نہ کبھی دور کا نظارہ مجھے