ابھی شعور نے بس دکھتی رگ ٹٹولی ہے
ابھی تو زندگی بس نیند ہی میں بولی ہے
کسی خیال نے شب کو جو آنکھ کھولی ہے
دکھوں کی اوس میں دل نے نوا بھگو لی ہے
پڑی نہیں ہے تمہیں وقت کی ابھی تک مار
بھگت سکو گے بھی کیا تم زباں تو کھولی ہے
مذاق بس یہ کیا میرے ساتھ فطرت نے
متاع دل بھی مری بس نظر میں تولی ہے
کبھی اس اپنے تصور پہ آنکھ بھی بھر آئی
قضا کے دوش پہ جیسے بقا کی ڈولی ہے
غزل
ابھی شعور نے بس دکھتی رگ ٹٹولی ہے
منموہن تلخ