ابھی مرا آفتاب افق کی حدود سے آشنا نہیں ہے
مری بھی شب کی سحر ہے لیکن نمود سے آشنا نہیں ہے
کھلے کسی کے شعور پر تو مجھے بھی اس کا سراغ دے دے
کہ میرا جوہر ہنوز اپنے وجود سے آشنا نہیں ہے
غضب ہے فطرت کا دشت و کہسار میں نوائے سکوت بھرنا
مگر وہ کیا سن سکے گا جو اس سرود سے آشنا نہیں ہے
میں کس گماں پر کہوں زمانے میں میرا آغاز ہو چکا ہے
کہ میرا لمحہ ابھی تک اپنے ورود سے آشنا نہیں ہے
خبر نہیں کاروبار الفت میں جا رہی ہے کدھر طبیعت
زیاں سے رکھتی نہیں تعارف کہ سود سے آشنا نہیں ہے
دلا رہا ہوں میں اس کو احساس اس کی پہلی رفاقتوں کا
جو آج اقبالؔ میری بود و نبود سے آشنا نہیں ہے
غزل
ابھی مرا آفتاب افق کی حدود سے آشنا نہیں ہے
اقبال کوثر