ابھی جو گردش ایام سے ملا ہوں میں
سمجھ رہی تھی کسی کام سے ملا ہوں میں
شکست شب تری تقریب سے ذرا پہلے
دیے جلاتی ہوئی شام سے ملا ہوں میں
اجل سے پہلے بھی ملتا رہا ہوں پر اب کے
بڑے سکوں بڑے آرام سے ملا ہوں میں
تری قبا کی مہک ہر طرف نمایاں تھی
ہوائے وادئ گل فام سے ملا ہوں میں
میں جانتا ہوں مکینوں کی خامشی کا سبب
مکاں سے پہلے در و بام سے ملا ہوں میں
سلیمؔ نام بتایا تھا غالباً اس نے
کل ایک شاعر گمنام سے ملا ہوں میں
غزل
ابھی جو گردش ایام سے ملا ہوں میں
سلیم کوثر