ابھی گزرے دنوں کی کچھ صدائیں شور کرتی ہیں
دریچے بند رہنے دو، ہوائیں شور کرتی ہیں
یہی تو فکر کے جلتے پروں پہ تازیانہ ہے
کہ ہر تاریک کمرے میں دعائیں شور کرتی ہیں
کہا نا تھا حصار اسم اعظم کھینچنے والے
یہاں آسیب رہتے ہیں بلائیں شور کرتی ہیں
ہمیں بھی تجربہ ہے بے گھری کا چھت نہ ہونے کا
درندے، بجلیاں، کالی گھٹائیں شور کرتی ہیں
ابھی گرد سفر کے گریے کی ہے گونج کانوں میں
ابھی کیوں منتظر خالی سرائیں شور کرتی ہیں
ہمیں سیراب رکھا ہے خدا کا شکر ہے اس نے
جہاں بنجر زمینیں ہوں انائیں شور کرتی ہیں

غزل
ابھی گزرے دنوں کی کچھ صدائیں شور کرتی ہیں
یاسمین حبیب