ابھی دکھی ہوں بہت اور بہت اداس ہوں میں
ہنسوں تو کیسے کہ تصویر درد و یاس ہوں میں
قریب رہ کے بھی تو مجھ سے دور دور رہا
یہ اور بات کہ برسوں سے تیرے پاس ہوں میں
بھٹک رہا ہوں ابھی خار دار صحرا میں
مگر مزاج گلستاں سے روشناس ہوں میں
جو تیرگی میں دیا بن کے روشنی بخشے
اس اعتماد کی ہلکی سی ایک آس ہوں میں
خود اپنے ہاتھ سے سیتا ہوں اور پہنتا ہوں
اس عہد نو کا وہ بکھرا ہوا لباس ہوں میں
کمالؔ مجھ کو نئی نسل یاد رکھے گی
کتاب زیست کا اک ایسا اقتباس ہوں میں
غزل
ابھی دکھی ہوں بہت اور بہت اداس ہوں میں
کمال جعفری