ابھی دیکھی کہاں ہیں آپ نے سب خوبیاں میری
نگاہیں ڈھونڈھتی ہیں آپ کی بس خامیاں میری
مرا کردار دنیاں میں شہادت سے منور ہے
نظر آئیں فلک پر سب کو روشن سرخیاں میری
وہاں برسوں تلک پھولوں کی کھیتی ہوتی رہتی ہے
برس جاتی ہیں جن خطوں پہ جا کر بدلیاں میری
میں ہر نیکی کو اپنے دشمنوں میں بانٹ دیتی ہوں
ثمر آور رہا کرتی ہیں اس سے نیکیاں میری
زمانہ چاہے جو سمجھے انا کے ساتھ زندہ ہوں
تمہیں بھی جیت لے گی ایک دن یے خوبیاں میری
کسی بھی معرکے پر اب تلک ہاری نہیں ہوں میں
مرا زیور رہا ہے دوستوں خودداریاں میری
جسے تم راکھ سمجھے ہو ابھی تک آگ ہے اس میں
کریدو مت جلا دے گی تمہیں چنگاریاں میری
سبینؔ اکثر میں دسترخواں سے اٹھ جاتی ہوں بن کھائے
کسی بھوکے کے کام آ جائیں شاید روٹیاں میری
غزل
ابھی دیکھی کہاں ہیں آپ نے سب خوبیاں میری
غوثیہ خان سبین