عبث ہیں ناصحا ہم سے ز خود رفتوں کی تدبیریں
رکے ہے بحر کب گو موج سے ہوں لاکھ زنجیریں
ہماری آہ سے آگے تو پتھر آب ہوتے تھے
پہ کیا جانے وہ اب کیدھر گئیں نالے کی تاثیریں
یہ اک صورت ہے گر کھینچے وہ میرے یار کا نقشہ
میں کب معنوں ہوں یوں مانی لکھے گر لاکھ تصویریں
لگائی آگ پانی میں یہ کس کے عکس نے پیارے
کہ ہم دیگر چلی ہیں موج سے دریا میں شمشیریں
سنا ہی میں نہ گوش لطف سے احوال کو میرے
چھپی تھیں ورنہ خاموشی میں اپنی لاکھ تقریریں
رکھے ہے ہوش اگر تو قصر کر طول عمارت کا
کہ اس بنیاد پر کب تک کرے گا تو یہ تعمیریں
گریباں کی تو قائمؔ مدتوں دھجئیں اڑائی ہیں
پہ خاطر جمع اس دن ہووے جب سینے کو ہم چیریں
غزل
عبث ہیں ناصحا ہم سے ز خود رفتوں کی تدبیریں
قائم چاندپوری