عبث ہے ناز استغنا پہ کل کی کیا خبر کیا ہو
خدا معلوم یہ سامان کیا ہو جائے سر کیا ہو
یہ آہ بے اثر کیا ہو یہ نخل بے ثمر کیا ہو
نہ ہو جب درد ہی یارب تو دل کیا ہو جگر کیا ہو
جہاں انسان کھو جاتا ہو خود پھر اس کی محفل میں
رسائی کس طرح ہو دخل کیوں کر ہو گزر کیا ہو
نہ پوچھوں گا میں یہ بھی جام میں ہے زہر یا امرت
تمہارے ہاتھ سے اندیشۂ نفع و ضرر کیا ہو
مروت سے ہو بیگانہ وفا سے دور ہو کوسوں
یہ سچ ہے نازنیں ہو خوب صورت ہو مگر کیا ہو
شگوفے دیکھ کر مٹھی میں زر کو مسکراتے ہیں
کہ جب عمر اس قدر کوتاہ رکھتے ہیں تو زر کیا ہو
رہا کرتی ہے یہ حیرت مجھے زہد ریائی پر
خدا سے جو نہیں ڈرتا اسے بندہ کا ڈر کیا ہو
کہا میں نے کہ نظمؔ مبتلا مرتا ہے حسرت میں
کہا اس نے اگر مر جائے تو میرا ضرر کیا ہو
کہا میں نے کہ ہے سوز جگر اور اف نہیں کرتا
کہا اس کی اجازت ہی نہیں پھر نوحہ گر کیا ہو
کہا میں نے کہ دے اس کو اجازت آہ کرنے کی
کہا اس نے بھڑک اٹھے اگر سوز جگر کیا ہو
کہا میں نے کہ آنسو آنکھ کا لیکن نہیں تھمتا
کہا آنکھیں کوئی تلووں سے مل ڈالے اگر کیا ہو
کہا میں نے قدم بھر پر ہے وہ صورت دکھا آؤ
کہا منہ پھیر کر اتنا کسی کو درد سر کیا ہو
کہا میں نے اثر مطلق نہیں کیا سنگ دل ہے تو
کہا جب دل ہو پتھر کا تو پتھر پر اثر کیا ہو
کہا میں نے جو مر جائے تو کیا ہو سوچ تو دل میں
کہا ناعاقبت اندیش نے کچھ سوچ کر کیا ہو
کہا میں نے خبر بھی ہے کہ دی جاں اس نے گھٹ گھٹ کر
کہا مر جائے چپکے سے تو پھر مجھ کو خبر کیا ہو
غزل
عبث ہے ناز استغنا پہ کل کی کیا خبر کیا ہو
نظم طبا طبائی