عبث ہے دوری کا اس کے شکوہ بغل میں اپنے وہ دل ربا ہے
چبھی ہے قالب میں جس طرح جاں اسے طریقہ سے وہ چھپا ہے
مکاں بھی ہے وہ مکیں بھی ہے وہ وہی ملا ہے وہی جدا ہے
اسی کا جلوہ ہر ایک سو ہے وہی ہے ظاہر وہی چھپا ہے
غم محبت ہے اس کا جس کو نہیں وہ غم عین ہے وہ راحت
خراب جو عشق میں ہے اس کے نہیں وہ بگڑا بنا ہوا ہے
نہ پارسائی نماز سے ہے نہ روزہ داری ہے زہد و تقویٰ
مئے محبت پئے جو اس کی وہی حقیقت میں پارسا ہے
وہ رنج آخر کو ہوگا راحت وہ مرگ عمر دوام ہوگی
جو عشق صادق میں مر مٹا تو تو پھر عبث شاکیٔ جفا ہے
نہ کوئی دشمن نہ دوست اپنا نہ نیک و بد سے ہمیں تعلق
جو چشم وحدت سے ہم نے دیکھا نہ کچھ برا ہے نہ کچھ بھلا ہے
جو درد ہجراں سے جاں بہ لب ہے علاج ممکن ہے اس کا کیوں کر
مسیح سمجھے ہیں جس کو وہ خود مرض میں الفت کی مبتلا ہے
جہاں میں صدہا ہزارہا گھر بسے جو تھے وہ اجڑ گئے ہیں
نہ ہوگا ویران خانۂ دل جہاں وہ بت آ کے بس گیا ہے
جو ہے طلب گار اس کا صادق ہوا ہے دونوں جہاں سے فارغ
نہ حور و غلماں کا ہے وہ خواہاں نہ وہ حسینوں پہ شیفتہ ہے
زبان انساں میں کب ہے قدرت کرے جو اظہار شان وحدت
نہ ابتدا سے ہے کوئی واقف نہ اس کی معلوم انتہا ہے
اٹھا لے فضل و کرم سے یا رب کریم ہے اور رحیم تو ہے
جو برقؔ بار عظیم عصیاں سے گر کے در پر ترے پڑا ہے

غزل
عبث ہے دوری کا اس کے شکوہ بغل میں اپنے وہ دل ربا ہے
شیام سندر لال برق