اب زباں خنجر قاتل کی ثنا کرتی ہے
ہم وہی کرتے ہیں جو خلق خدا کرتی ہے
پھر کوئی رات بجھا دیتی ہے میری آنکھیں
پھر کوئی صبح دریچے مرے وا کرتی ہے
ایک پیمان وفا خاک بسر ہے سر شام
خیمہ خالی ہوا تنہائی عزا کرتی ہے
ہو کا عالم ہے گرفتاروں کی آبادی میں
ہم تو سنتے تھے کہ زنجیر صدا کرتی ہے
کیسی مٹی ہے کہ دامن سے لپٹتی ہی نہیں
کیسی ماں ہے کہ جو بچوں کو جدا کرتی ہے
اب نمودار ہو اس گرد سے اے ناقہ سوار
کب سے بستی ترے ملنے کی دعا کرتی ہے
غزل
اب زباں خنجر قاتل کی ثنا کرتی ہے
عرفانؔ صدیقی