اب یہ کھلا کہ عشق کا پندار کچھ نہیں
دیوار گر گئی پس دیوار کچھ نہیں
جس نے سمجھ لیا تھا مجھے آسمان پر
اب جانتا ہے وہ مرا کردار کچھ نہیں
خود مجھ کو اعتماد نہیں اپنی ذات پر
انکار میرا کچھ نہیں اقرار کچھ نہیں
وہ بھی سمجھ گیا کہ ہوس کا یہ کھیل ہے
اب مدح چشم و گیسو و رخسار کچھ نہیں
مضراب غم نے اور بھی خاموش کر دیا
گو کھنچ گیا ہے ساز کا ہر تار کچھ نہیں
میں بوجھ ہوں تو پھینک دے اے کرۂ زمین
کچھ اور تیز گھوم یہ رفتار کچھ نہیں
دھندلا گیا ہے شیشۂ معصومیت خیالؔ
اب انفعال چشم گنہ گار کچھ نہیں

غزل
اب یہ کھلا کہ عشق کا پندار کچھ نہیں
مستحسن خیال