اب یہ ہوگا شاید اپنی آگ میں خود جل جائیں گے
تم سے دور بہت رہ کر بھی کیا پایا کیا پائیں گے
دکھ بھی سچے سکھ بھی سچے پھر بھی تیری چاہت میں
ہم نے کتنے دھوکے کھائے کتنے دھوکے کھائیں گے
کل کے دکھ بھی کون سے باقی آج کے دکھ بھی کے دن کے
جیسے دن پہلے کاٹے تھے یہ دن بھی کٹ جائیں گے
عقل پہ ہم کو ناز بہت تھا لیکن یہ کب سوچا تھا
عشق کے ہاتھوں یہ بھی ہوگا لوگ ہمیں سمجھائیں گے
آنکھوں سے اوجھل ہونا کیا دل سے اوجھل ہونا ہے
تجھ سے چھٹ کر بھی اہل غم کیا تجھ سے چھٹ جائیں گے
ہم سے آبلہ پا جب تنہا گھبرائیں گے صحرا میں
راستے سب تیرے ہی گھر کی جانب کو مڑ جائیں گے
غزل
اب یہ ہوگا شاید اپنی آگ میں خود جل جائیں گے
احمد ہمدانی