اب یہی بہتر ہے نقش آب ہونے دے مجھے
یوں ہی رسوا خاطر احباب ہونے دے مجھے
نیند آنکھوں میں پرندوں کی طرح اتری ہے آج
اے نفس آہستہ چل غرقاب ہونے دے مجھے
ایک ٹکڑا ابر کا پھرتا ہے مانند غزال
اے مری چشم ہوس سیراب ہونے دے مجھے
عمر بھر میں ایک کام ایسا تو کر شوق جنوں
میں اگر دریا ہوں تو بے آب ہونے دے مجھے
میں بھی پتھر بن کے زیر آب سو جاؤں کہیں
کب ہوا ایسا کہ اب گرداب ہونے دے مجھے
مہرباں جنگل کے سائے تو ہی دے اپنی پناہ
خواب آنکھوں میں ہیں محو خواب ہونے دے مجھے
پیاس کہتی ہے کہ چل دریا اٹھا لائیں یہیں
درد کہتا ہے کہ رک پایاب ہونے دے مجھے

غزل
اب یہی بہتر ہے نقش آب ہونے دے مجھے
صدیق مجیبی