اب وہ موڑ آیا کہ ہر پل معتبر ہونے کو ہے
دیکھنا منظر نیا دیوار در ہونے کو ہے
اب لہو کا رنگ گہرا ہے مری تصویر میں
ایسا لگتا ہے کہ قصہ مختصر ہونے کو ہے
اڑ چلی ہے ہر طرف دامن میں بھر لینے کی بات
قطرہ قطرہ اس کے دریا کا گہر ہونے کو ہے
میں بھی دیکھوں مجھ کو منظر سے ہٹا دینے کے بعد
اب تماشا کون سا بار دگر ہونے کو ہے
پھر تراشی جانے والی ہیں چراغوں کی لویں
شام ہوتے ہوتے گرم ایسی خبر ہونے کو ہے
مڑ کے دیکھوں تو عقب میں کچھ نظر آتا نہیں
سامنے بھی گم نشان رہگزر ہونے کو ہے
اب نئی راہیں کھلیں گی مجھ پر امکانات کی
رمزؔ میرے تن پہ ظاہر میرا سر ہونے کو ہے
غزل
اب وہ موڑ آیا کہ ہر پل معتبر ہونے کو ہے
محمد احمد رمز