EN हिंदी
اب وہ گلی جائے خطر ہو گئی | شیح شیری
ab wo gali ja-e-KHatar ho gai

غزل

اب وہ گلی جائے خطر ہو گئی

نسیم دہلوی

;

اب وہ گلی جائے خطر ہو گئی
حال سے لوگوں کو خبر ہو گئی

وصل کی شب کیا کہوں کیوں کر کٹی
بات نہ کی تھی کہ سحر ہو گئی

دیکھیں گے اے ضبط یہ دعوے ترے
رات جدائی کی اگر ہو گئی

حضرت ناصح نے کہی بات جو
ہم اثر درد جگر ہو گئی

میں نہ ہوا غیر ہوئے مستفیض
تیری نظر تھی وہ جدھر ہو گئی

یاد کسی کی مجھے پھر ان دنوں
جوش زن دیدۂ تر ہو گئی

کس کی ہم آغوشی کا تھا عزم جو
زلف تری طوق کمر ہو گئی