اب اس کی یاد ستانے کو بار بار آئے
وہ زندگی جو ترے شہر میں گزار آئے
یہ بے بسی بھی نہیں لطف اختیار سے کم
خدا کرے نہ کبھی دل پہ اختیار آئے
قدم قدم پہ گلستاں کھلے تھے رستے میں
عجیب لوگ ہیں ہم بھی کہ سوئے دار آئے
نہ چہچہے نہ سرود شگفتگی نہ مہک
کسے اب ایسی بہاروں پہ اعتبار آئے
جنوں کو اب کے گریباں سے کیا ملے گا کہ ہم
بفیض موسم گل پیرہن اتار آئے
تری لگن نے زمانے کی خاک چھنوائی
تری طلب میں تمام آرزوئیں ہار آئے
یہ فخر کم تو نہیں کوئے یار میں نکہتؔ
نہ شرمسار گئے تھے نہ شرمسار آئے
غزل
اب اس کی یاد ستانے کو بار بار آئے
نکہت بریلوی