EN हिंदी
اب اس کی یاد ستانے کو بار بار آئے | شیح شیری
ab uski yaad satane ko bar bar aae

غزل

اب اس کی یاد ستانے کو بار بار آئے

نکہت بریلوی

;

اب اس کی یاد ستانے کو بار بار آئے
وہ زندگی جو ترے شہر میں گزار آئے

یہ بے بسی بھی نہیں لطف اختیار سے کم
خدا کرے نہ کبھی دل پہ اختیار آئے

قدم قدم پہ گلستاں کھلے تھے رستے میں
عجیب لوگ ہیں ہم بھی کہ سوئے دار آئے

نہ چہچہے نہ سرود شگفتگی نہ مہک
کسے اب ایسی بہاروں پہ اعتبار آئے

جنوں کو اب کے گریباں سے کیا ملے گا کہ ہم
بفیض موسم گل پیرہن اتار آئے

تری لگن نے زمانے کی خاک چھنوائی
تری طلب میں تمام آرزوئیں ہار آئے

یہ فخر کم تو نہیں کوئے یار میں نکہتؔ
نہ شرمسار گئے تھے نہ شرمسار آئے