اب انہیں مجھ سے کچھ حجاب نہیں
اب ان آنکھوں میں کوئی خواب نہیں
میری منزل ہے روشنی لیکن
میری قدرت میں آفتاب نہیں
تجھ کو ترتیب دے رہا ہوں میں
میری غزلوں کا انتخاب نہیں
اب سنا ہے کہ میرے دل کی طرح
ایک صحرا ہے ماہتاب نہیں
شام اتنی کبھی اداس نہ تھی
کیوں تری زلف میں گلاب نہیں
یوں نہ پڑھیے کہیں کہیں سے ہمیں
ہم بھی انسان ہیں کتاب نہیں
کہکشاں سو رہی ہے اے شبنمؔ
حسن آنگن میں محو خواب نہیں
غزل
اب انہیں مجھ سے کچھ حجاب نہیں
شبنم رومانی