اب تو یوں لب پہ مرے حرف صداقت آئے
ناگہاں شہر پہ جیسے کوئی آفت آئے
مصلحت ہو گئی ممنوعہ شجر کی صورت
لاکھ روکوں مگر اس پر ہی طبیعت آئے
دخل خوشیوں کا مری زیست میں کیسے ہو کہ جب
تیرا غم بھی غم دوراں کی بدولت آئے
جس پہ میں چھاپ سکوں سکۂ خود مختاری
زندگی میں کوئی ایسی بھی تو ساعت آئے
رات بھر دھوتا ہوں تاروں کی ندی میں آنکھیں
تب کہیں جا کے نظر صبح کی صورت آئے
برف حالات کی بن جائے نہ پوشاک حیات
اتنی تو تیری تمنا میں حرارت آئے
وسعت لمحہ پہ رکھتا ہوں نگاہیں روحیؔ
کیوں نہ تحریر میں فردا کی عبارت آئے
غزل
اب تو یوں لب پہ مرے حرف صداقت آئے
روحی کنجاہی