اب تو تم بھی جواں ہوئے ہو دیکھیں گے دل کو بچاؤ گے تم
مل جو گیا ہم چشم کوئی پھر آنکھ اسی سے لڑاؤ گے تم
اب جو ہم تم سے کرتے ہیں تم بھی کسی سے کرو گے وہی
ہم سے تمہارا سلوک ہے جیسا ویسا ہی بدلہ پاؤ گے تم
بے تابی سے کرو گے کیا کیا نہ کئی کسی کی مجلس میں
آؤ گے تم بیٹھو گے تم پھر آؤ گے تم اٹھ جاؤ گے تم
رعشہ تھی زباں میں لکنت پاؤں بیڑی مہرا دیں گے
منہ سے کچھ کا کچھ نکلے گا دل میں جو ٹھہراؤ گے تم
وہ تو تمہاری سیکھ تمہیں سے بات میں بات نکالے گا
میری صورت اپنا سا منہ تاک کے پھر رہ جاؤ گے تم
نام کو دانہ دو دو دن تک میری طرح دیکھو گے نہیں
جب میں بہت سمجھاؤں گا تو تھوڑا سا کھانا کھاؤ گے تم
نئی نئی چوٹیں کھا کھا کر جب بے کل ہو ہو جاؤ گے
مجھ کو ہم درد اپنا سمجھ کہنے کو غم کے آؤ گے تم
ہر ہر بات میں رو رو کے گھبرا گھبرا کر بولو گے
کیسے غریب غریب سے ہو کر دل کی باتیں سناؤ گے تم
میرے حال پہ شعروں کے مضمون بہت یاد آئیں گے
دس دس بار ایک ایک غزل کو مجھ سے پھر پڑھواؤ گے تم
دل میں تم اپنے مت لانا جیتے رہے گر میر رضاؔ
دے دل اس کا ہاتھ میں لے کے جیسے دل کو لگاؤ گے تم
غزل
اب تو تم بھی جواں ہوئے ہو دیکھیں گے دل کو بچاؤ گے تم
رضا عظیم آبادی