اب تو کچھ اور بھی اندھیرا ہے
یہ مری رات کا سویرا ہے
رہزنوں سے تو بھاگ نکلا تھا
اب مجھے رہبروں نے گھیرا ہے
آگے آگے چلو تبر والو
ابھی جنگل بہت گھنیرا ہے
قافلہ کس کی پیروی میں چلے
کون سب سے بڑا لٹیرا ہے
سر پہ راہی کے سربراہی نے
کیا صفائی کا ہاتھ پھیرا ہے
سرمہ آلود خشک آنسوؤں نے
نور جاں خاک پر بکھیرا ہے
راکھ راکھ استخواں سفید سفید
یہی منزل یہی بسیرا ہے
اے مری جان اپنے جی کے سوا
کون تیرا ہے کون میرا ہے
سو رہو اب حفیظؔ جی تم بھی
یہ نئی زندگی کا ڈیرا ہے
غزل
اب تو کچھ اور بھی اندھیرا ہے
حفیظ جالندھری