اب تو خوشی کا غم ہے نہ غم کی خوشی مجھے
بے حس بنا چکی ہے بہت زندگی مجھے
وہ وقت بھی خدا نہ دکھائے کبھی مجھے
ان کی ندامتوں پہ ہو شرمندگی مجھے
رونے پہ اپنے ان کو بھی افسردہ دیکھ کر
یوں بن رہا ہوں جیسے اب آئی ہنسی مجھے
یوں دیجئے فریب محبت کہ عمر بھر
میں زندگی کو یاد کروں زندگی مجھے
رکھنا ہے تشنہ کام تو ساقی بس اک نظر
سیراب کر نہ دے مری تشنہ لبی مجھے
پایا ہے سب نے دل مگر اس دل کے باوجود
اک شے ملی ہے دل میں کھٹکتی ہوئی مجھے
راضی ہوں یا خفا ہوں وہ جو کچھ بھی ہوں شکیلؔ
ہر حال میں قبول ہے ان کی خوشی مجھے
غزل
اب تو خوشی کا غم ہے نہ غم کی خوشی مجھے
شکیل بدایونی