اب تو دل و دماغ میں کوئی خیال بھی نہیں
اپنا جنون بھی نہیں اس کا جمال بھی نہیں
اس سے بچھڑ کے زیست میں یے ہی گلہ رہا مجھے
اس سے جدا بھی ہوں مگر جینا محال بھی نہیں
عشق کی جنگ میں میاں یہ ہی اصول ہے بجا
ہاتھ میں اس کے تیغ ہو آپ کے ڈھال بھی نہیں
مجھ کو کہیں ملی نہیں کوئی بھی راہ پر سکوں
سمت جنوب بھی نہیں سمت شمال بھی نہیں
میرے بدن پہ تھا کبھی اس کے بدن کا پیرہن
آج بلا کا ہجر ہے جسم پہ شال بھی نہیں
یہ بھی کمال ہی تو ہے قابل داد صاحبان
آج کلام جشنؔ میں کوئی کمال بھی نہیں
غزل
اب تو دل و دماغ میں کوئی خیال بھی نہیں
سنیل کمار جشن