اب تو انگاروں کے لب چوم کے سو جائیں گے
ہم وہ پیاسے ہیں جو دریاؤں کو ترسائیں گے
خواب آئینے ہیں آنکھوں میں لیے پھرتے ہو
دھوپ میں چمکیں گے ٹوٹیں گے تو چبھ جائیں گے
صبح تک دل کے دریچوں کو کھلا رہنے دو
درد گمراہ فرشتے ہیں کہاں جائیں گے
نیند کی فاختہ سہمی ہوئی ہے آنکھوں میں
تیر یادوں کی کمیں گاہوں سے پھر آئیں گے
غزل
اب تو انگاروں کے لب چوم کے سو جائیں گے
بشیر بدر