EN हिंदी
اب تو آنکھ سے اتنا جادو کر لیتا ہوں | شیح شیری
ab to aankh se itna jadu kar leta hun

غزل

اب تو آنکھ سے اتنا جادو کر لیتا ہوں

حسن عباسی

;

اب تو آنکھ سے اتنا جادو کر لیتا ہوں
جس کو چاہوں اس کو قابو کر لیتا ہوں

میرے ہاتھ میں جب سے اس کا ہاتھ آیا ہے
خار کو پھول اور پھول کو خوشبو کر لیتا ہوں

رات کی تنہائی میں جب بھی گھر سے نکلوں
اس کی یادوں کو میں جگنو کر لیتا ہوں

دل کا دریا صحرا ہونے سے پہلے ہی
اپنی ہر اک خواہش آہو کر لیتا ہوں

جب بھی دل کی سمت حسنؔ بڑھتا ہے کوئی
اس کے آگے اپنے بازو کر لیتا ہوں