اب تو آنکھ سے اتنا جادو کر لیتا ہوں
جس کو چاہوں اس کو قابو کر لیتا ہوں
میرے ہاتھ میں جب سے اس کا ہاتھ آیا ہے
خار کو پھول اور پھول کو خوشبو کر لیتا ہوں
رات کی تنہائی میں جب بھی گھر سے نکلوں
اس کی یادوں کو میں جگنو کر لیتا ہوں
دل کا دریا صحرا ہونے سے پہلے ہی
اپنی ہر اک خواہش آہو کر لیتا ہوں
جب بھی دل کی سمت حسنؔ بڑھتا ہے کوئی
اس کے آگے اپنے بازو کر لیتا ہوں
غزل
اب تو آنکھ سے اتنا جادو کر لیتا ہوں
حسن عباسی