اب تو آئے نظر میں جو بھی ہو
نیند کے بام و در میں جو بھی ہو
جسم و جاں کا مکاں ہوا خالی
ایسے تنہا سفر میں جو بھی ہو
گونجتے ہیں فضا میں سناٹے
ٹوٹنے کے اثر میں جو بھی ہو
گم تو ہوگا ستارۂ شب دل
کم ہے اس رات بھر میں جو بھی ہو
دھوپ ہو ابر ہو کہ سایۂ گل
اب تو اس رہ گزر میں جو بھی ہو
خاورؔ اس سبز خیمۂ گل تک
اس کڑی دوپہر میں جو بھی ہو
غزل
اب تو آئے نظر میں جو بھی ہو
ایوب خاور