EN हिंदी
اب تو آئے نظر میں جو بھی ہو | شیح شیری
ab to aae nazar mein jo bhi ho

غزل

اب تو آئے نظر میں جو بھی ہو

ایوب خاور

;

اب تو آئے نظر میں جو بھی ہو
نیند کے بام و در میں جو بھی ہو

جسم و جاں کا مکاں ہوا خالی
ایسے تنہا سفر میں جو بھی ہو

گونجتے ہیں فضا میں سناٹے
ٹوٹنے کے اثر میں جو بھی ہو

گم تو ہوگا ستارۂ شب دل
کم ہے اس رات بھر میں جو بھی ہو

دھوپ ہو ابر ہو کہ سایۂ گل
اب تو اس رہ گزر میں جو بھی ہو

خاورؔ اس سبز خیمۂ گل تک
اس کڑی دوپہر میں جو بھی ہو