اب ترے شہر سے چپ چاپ گزرنا ہوگا
زندہ ہوتے ہوئے ہر موڑ پہ مرنا ہوگا
میرے حالات اگر کوئی سمجھنا چاہے
اس کو اک بار مرے دل میں اترنا ہوگا
نقش ماضی کے مٹا کر سبھی دل سے اپنے
درد و غم سے ہمیں اک بار ابھرنا ہوگا
ہم نے سچائی کی ہر بار حمایت کی ہے
ہم کو اس بھول کا خمیازہ تو بھرنا ہوگا
آئنہ جان کے دیکھوں گی تری آنکھوں کو
جب کبھی تیرے لیے مجھ کو سنورنا ہوگا
اس محبت کو نہ لگ جائے کہیں کوئی نظر
ہم کو دنیا کی نگاہوں سے بھی ڈرنا ہوگا
دیکھنا ہے ہمیں اک وعدہ فراموش سیاؔ
شام تک دھوپ کے صحرا میں ٹھہرنا ہوگا
غزل
اب ترے شہر سے چپ چاپ گزرنا ہوگا
سیا سچدیو