اب تیرے لیے ہیں نہ زمانے کے لیے ہیں
ہم گوشۂ تنہائی سجانے کے لیے ہیں
مطلب مری تحریر کا الفاظ سے مت پوچھ
الفاظ تو مفہوم چھپانے کے لیے ہیں
ہاں تیرے تغافل سے پریشان ہیں ہم بھی
یہ طنز کے تیور تو دکھانے کے لیے ہیں
تم سامنے ہو پھر بھی چلے آئے زباں پر
وہ گیت جو تنہائی میں گانے کے لیے ہیں
خط واقعی کیا خوب ہے اک پردہ نشیں کا
الفاظ عبارت کو چھپانے کے لیے ہیں
غزل
اب تیرے لیے ہیں نہ زمانے کے لیے ہیں
شجاع خاور