EN हिंदी
اب تیرے انتظار کی عادت نہیں رہی | شیح شیری
ab tere intizar ki aadat nahin rahi

غزل

اب تیرے انتظار کی عادت نہیں رہی

شاذیہ اکبر

;

اب تیرے انتظار کی عادت نہیں رہی
پہلے کی طرح گویا محبت نہیں رہی

ذوق نظر ہمارا بڑھا ہے کچھ اس طرح
تیرے جمال پر بھی قناعت نہیں رہی

فرقت میں اس کی روز ہی ہوتی تھی اک غزل
اب شاعری ذریعۂ راحت نہیں رہی

دنیا نے تیرے غم سے بھی بیگانہ کر دیا
اب دل میں تیرے وصل کی چاہت نہیں رہی

کچھ ہم بھی تھک گئے ترے در پر کھڑے کھڑے
تم میں بھی پہلے جیسی سخاوت نہیں رہی

تکتے ہیں روز ایک ہی صورت الم کی ہم
یا رب ترے جہاں میں بھی جدت نہیں رہی