اب تیرے انتظار کی عادت نہیں رہی
پہلے کی طرح گویا محبت نہیں رہی
ذوق نظر ہمارا بڑھا ہے کچھ اس طرح
تیرے جمال پر بھی قناعت نہیں رہی
فرقت میں اس کی روز ہی ہوتی تھی اک غزل
اب شاعری ذریعۂ راحت نہیں رہی
دنیا نے تیرے غم سے بھی بیگانہ کر دیا
اب دل میں تیرے وصل کی چاہت نہیں رہی
کچھ ہم بھی تھک گئے ترے در پر کھڑے کھڑے
تم میں بھی پہلے جیسی سخاوت نہیں رہی
تکتے ہیں روز ایک ہی صورت الم کی ہم
یا رب ترے جہاں میں بھی جدت نہیں رہی
غزل
اب تیرے انتظار کی عادت نہیں رہی
شاذیہ اکبر