اب تلک تند ہواؤں کا اثر باقی ہے
اک چراغ اور سر راہ گزر باقی ہے
وہ ہماری نہیں سنتا تو گلہ ہے کیسا
اب کہاں اپنی دعاؤں میں اثر باقی ہے
دل میں باقی ہیں فقط چند لہو کے قطرے
اب مرے پاس یہی زاد سفر باقی ہے
پھر بنا لیں گے اسی جا پہ نشیمن اپنا
آشیاں جس پہ تھا وہ شاخ شجر باقی ہے
معصیت اشک ندامت سے بھی دھل جاتی ہے
مطمئن ہوں کہ ابھی دیدۂ تر باقی ہے
جب وہ چاہے مجھے دو نیم کرے آ کے حبابؔ
دست قاتل میں یہی ایک ہنر باقی ہے
غزل
اب تلک تند ہواؤں کا اثر باقی ہے
حباب ہاشمی