EN हिंदी
اب تلک تند ہواؤں کا اثر باقی ہے | شیح شیری
ab talak tund hawaon ka asar baqi hai

غزل

اب تلک تند ہواؤں کا اثر باقی ہے

حباب ہاشمی

;

اب تلک تند ہواؤں کا اثر باقی ہے
اک چراغ اور سر راہ گزر باقی ہے

وہ ہماری نہیں سنتا تو گلہ ہے کیسا
اب کہاں اپنی دعاؤں میں اثر باقی ہے

دل میں باقی ہیں فقط چند لہو کے قطرے
اب مرے پاس یہی زاد سفر باقی ہے

پھر بنا لیں گے اسی جا پہ نشیمن اپنا
آشیاں جس پہ تھا وہ شاخ شجر باقی ہے

معصیت اشک ندامت سے بھی دھل جاتی ہے
مطمئن ہوں کہ ابھی دیدۂ تر باقی ہے

جب وہ چاہے مجھے دو نیم کرے آ کے حبابؔ
دست قاتل میں یہی ایک ہنر باقی ہے