اب تک شکایتیں ہیں دل بد نصیب سے
اک دن کسی کو دیکھ لیا تھا قریب سے
اکثر بہ زعم ترک محبت خدا گواہ
گزرا چلا گیا ہوں دیار حبیب سے
دست خزاں نے بڑھ کے وہیں اس کو چن لیا
جو پھول گر گیا نگہ عندلیب سے
اہل سکوں سے کھیل نہ اے موج انبساط
اک دن الجھ کے دیکھ کسی غم نصیب سے
نہ اہل ناز کو بھی ملے فرصت نیاز
میں دور ہٹ گیا جو وہ گزرے قریب سے
یہ کس خطا پہ روٹھ گئی چشم التفات
یہ کب کا انتقام لیا مجھ غریب سے
ان کے بغیر بھی ہے وہی زندگی کا دور
حالات زندگی ہیں مگر کچھ عجیب سے
سمجھے ہوئے تھے حسن ازل جس کو ہم شکیلؔ
اپنا ہی عکس رخ نظر آیا قریب سے
غزل
اب تک شکایتیں ہیں دل بد نصیب سے
شکیل بدایونی