اب طبیعت کہاں روانی میں
کشتی ٹوٹی ہے ٹھہرے پانی میں
وقت یوں تھم گیا ہے آنکھوں میں
دائرے جم گئے ہوں پانی میں
گھر ہی اندر سے لٹ گیا سارا
ہم تو باہر تھے پاسبانی میں
لطف موسم کا کیا اٹھاتے ہم
دل ہمیشہ رہا گرانی میں
ہم تو خوش فہمیوں میں جیتے ہیں
خوب مطلب ہے بے زبانی میں
غزل
اب طبیعت کہاں روانی میں
رفعت شمیم