اب سراب کے چشمے موجزن نہیں ہوتے
خشک ہو گئے شاید تشنگی کے سب سوتے
نیند میں بھی چادر کا اتنا پاس ہے تم کو
کچھ تو پاؤں پھیلاؤ اس طرح نہیں سوتے
کیسی رات آئی ہے نیند اڑ گئی سب کی
منزلیں تھپکتی ہیں قافلے نہیں سوتے
خواب خود حقیقت ہیں آنکھ کھول کر دیکھو
کس نے کہہ دیا تم سے خواب سچ نہیں ہوتے
چاک ہو گیا دامن ہاتھ ہو گئے زخمی
ایک داغ رسوائی اور کس طرح دھوتے
گریہ و تبسم تو ہیں نقاب چہروں کے
آئنے نہیں ہنستے آئنے نہیں روتے
غزل
اب سراب کے چشمے موجزن نہیں ہوتے
اعزاز افصل