اب سفر ہو تو کوئی خواب نما لے جائے
کوئی آئے مجھے پلکوں پہ اٹھا لے جائے
خود میں جھوموں کبھی اوروں کے لیے لہراؤں
اس سے پہلے کہ ہوا میرا دیا لے جائے
ہائے وہ آنکھ کہ جو حرف سجھاتی تھی کبھی
اب سر کوئے غزل کون بلا لے جائے
اس نے چاہا بھی تو کس ظرف سے چاہا مجھ کو
جیسے سینے میں کوئی حرف دعا لے جائے
زندگی بھر کا سفر ہو گئی چاہت تیری
اب جہاں تک ترے قدموں کی صدا لے جائے
دل کو دھڑکا ہے کہ شمعیں ہی بجھی تھیں پہلے
اب کے آندھی مرا خیمہ نہ اڑا لے جائے
شوقؔ دریاؤں کا پندار نہیں تم جیسا
یہ جو بپھرے تو بھرا شہر بہا لے جائے
غزل
اب سفر ہو تو کوئی خواب نما لے جائے
رضی اختر شوق