EN हिंदी
اب قبیلے کی روایت ہے بکھرنے والی | شیح شیری
ab qabile ki riwayat hai bikharne wali

غزل

اب قبیلے کی روایت ہے بکھرنے والی

عنبر بہرائچی

;

اب قبیلے کی روایت ہے بکھرنے والی
ہر نظر خود میں کوئی شہر ہے بھرنے والی

خوش گمانی یہ ہوئی سوکھ گیا جب دریا
ریت سے اب مری کشتی ہے ابھرنے والی

خوشبوؤں کے نئے جھونکے ہیں ہر اک دھڑکن میں
کون سی رت ہے مرے دل میں ٹھہرنے والی

کچھ پرندے ہیں مگن موسمی پروازوں میں
ایک آندھی ہے پر و بال کترنے والی

ہم بھی اب سیکھ گئے سبز پسینے کی زباں
سنگ زاروں کی جبینیں ہیں سنورنے والی

تیز دھن پر تھے سبھی رقص میں کیوں کر سنتے
چند لمحوں میں بلائیں تھیں اترنے والی

بس اسی وقت کئی جوالا مکھی پھوٹ پڑے
موتیوں سے مری ہر ناؤ تھی بھرنے والی

ڈھک لیا چاند کے چہرے کو سیہ بادل نے
چاندنی تھی مرے آنگن میں اترنے والی

دفعتاً ٹوٹ پڑے چند بگولے عنبرؔ
خوشبوئیں تھیں مری بستی سے گزرنے والی