اب پرندوں کی یہاں نقل مکانی کم ہے
ہم ہیں جس جھیل پہ اس جھیل میں پانی کم ہے
یہ جو میں بھاگتا ہوں وقت سے آگے آگے
میری وحشت کے مطابق یہ روانی کم ہے
دے مجھے انجم و مہتاب سے آگے کی خبر
مجھ سے فانی کے لئے عالم فانی کم ہے
غم کی تلخی مجھے نشہ نہیں ہونے دیتی
یہ غلط ہے کہ تری چیز پرانی کم ہے
غیب کے باغ کا وہ بھید کھلا ہے مجھ پر
جس کا ابلاغ پرندوں کی زبانی کم ہے
ہجر کو حوصلہ اور وصل کو فرصت درکار
اک محبت کے لئے ایک جوانی کم ہے
اتنا مشکل تو نہ تھا گمشدگاں کا ملنا
ہم نے اے دشت تری خاک ہی چھانی کم ہے
اس سمے موت کی خوشبو کے مقابل تابشؔ
کسی آنگن میں کھلی رات کی رانی کم ہے
غزل
اب پرندوں کی یہاں نقل مکانی کم ہے
عباس تابش