اب نئے رخ سے حقائق کو الٹ کر دیکھو
جن پہ چلتے رہے ان راہوں سے کٹ کر دیکھو
ایک آواز بلاتی ہے پلٹ کر دیکھو
دور تک کوئی نہیں کتنا بھی ہٹ کر دیکھو
یہ جو آوازیں ہیں پتھر کا بنا دیتی ہیں
گھر سے نکلے ہو تو پیچھے نہ پلٹ کر دیکھو
دل میں چنگاری کسی دکھ کی دبی ہو شاید
دیکھو اس راکھ کی پرتوں کو الٹ کر دیکھو
کون آئے گا کسے فرصت غم خواری ہے
آج خود اپنی ہی بانہوں میں سمٹ کر دیکھو
چھوڑ جاتے ہیں مکیں اپنے بدن کی خوشبو
گھر کی دیواروں سے اک بار لپٹ کر دیکھو
کچھ تپش اور سوا ہوتی ہے دل کی طارقؔ
اب تو جس یاد کے پہلو میں سمٹ کر دیکھو
غزل
اب نئے رخ سے حقائق کو الٹ کر دیکھو
طارق بٹ