اب مجھ کو کیا خبر وہ یہاں ہے بھی یا نہیں
ہر اک سے شہر میں تو مرا رابطہ نہیں
جنت بنا تو سکتے ہیں اس کائنات کو
لیکن مری طرح سے کوئی سوچتا نہیں
جس رہ گزر پہ پھول سجے ہیں مرے لیے
اے پائے شوق اب وہ مرا راستہ نہیں
ظاہر سے مطمئن ہے مرے اور اک نقاب
چہرے پہ جو پڑا ہے اسے دیکھتا نہیں
جب تک تھی دل میں سانس بھی خوشبو بنی رہی
ہونٹوں پہ آ کے بات میں اب کچھ رہا نہیں
اک وقت تھا کہ راہ گزرنا محال تھا
اب مڑ کے راستے میں کوئی دیکھتا نہیں
اب شام ہو گئی ہے مجھے سونا چاہئے
سورج ترے خیال کا گرچہ ڈھلا نہیں
غزل
اب مجھ کو کیا خبر وہ یہاں ہے بھی یا نہیں
شبنم شکیل