اب محبت نہ فسانہ نہ فسوں ہے یوں ہے
صاحب دشت تو کہتا تھا کہ یوں ہے یوں ہے
پس گریہ کوئی دیتا ہے تسلی تجھ کو
یہ جو اے دل تجھے بے وجہ سکوں ہے یوں ہے
میرؔ صاحب ہی نہیں اس سے پرے بیٹھتے ہیں
جو بھی شائستۂ آداب جنوں ہے یوں ہے
زندگی بھر میں کوئی شعر تو ایسا ہوتا
میں بھی کہتا جو مرا زخم دروں ہے یوں ہے
نیست میں ہست کا احساس دلاتی ہوئی آنکھ
شور کرتی ہے کہ ہے کن فیکوں ہے یوں ہے
غزل
اب محبت نہ فسانہ نہ فسوں ہے یوں ہے
عباس تابش