اب مری یاد کو دامن کی ہوائیں دینا
میں گیا وقت ہوں مجھ کو نہ صدائیں دینا
سخت بے جلوہ و بے نور ہیں لمحات فراق
دل بہل جائے گا چہرے کی ضیائیں دینا
ہجر کی پیاس سے جلتے ہیں بگولوں کے دہن
خشک صحراؤں کو زلفوں کی گھٹائیں دینا
یاد آتے ہیں جوانی کے جنوں خیز ایام
مضطرب ہو کے بیاباں کو صدائیں دینا
پھر قدم کوئے ملامت کی طرف اٹھے ہیں
مرے مولا مرے حصے کی خطائیں دینا
جامہ زیبی پہ تری ورنہ لگے گا الزام
عشق کے پیکر عریاں کو روائیں دینا
اس کا مجھ پر بڑا احسان مسیحائی ہے
میرے یارو مرے قاتل کو دعائیں دینا

غزل
اب مری یاد کو دامن کی ہوائیں دینا
ظہیر کاشمیری