EN हिंदी
اب مرنا ہے اپنے خوشی ہے جینے سے بے زاری ہے | شیح شیری
ab marna hai apne KHushi hai jine se be-zari hai

غزل

اب مرنا ہے اپنے خوشی ہے جینے سے بے زاری ہے

امداد علی بحر

;

اب مرنا ہے اپنے خوشی ہے جینے سے بے زاری ہے
عشق میں ایسے ہلکے ہوئے ہیں جان بدن کو بھاری ہے

شکوے کی چرچا ہوتی ہے چپکے ہی رہنا بہتر ہے
دل کو جلانا دل سوزی ہے یہ غم دنیا غم خواری ہے

کس کا وعدہ کون آتا ہے چین سے سوتا ہوگا وہ
رات بہت آئی ہے اے دل اب ناحق بیداری ہے

داؤ تھا اپنا جب وہ ہم سے چوپڑ سیکھنے آتے تھے
اب کچھ چال نہیں بن آتی جیت کے بازی ہاری ہے

لٹتے دیکھا غش میں دیکھا مرتے بھی دیکھا اس نے مجھے
اتنا نہ پوچھا کون ہے یہ اس شخص کو کیا بیماری ہے

ہجر ستم ہے کلفت و غم ہے کس سے کہیے حال اپنا
دن کو پڑے رہنا منہ ڈھانکے رات کو گریہ و زاری ہے

اٹھو کپڑے بدلو چلو کیا بیٹھے ہو بحرؔ اداس اداس
سیر کے دن ہیں پھول کھلے ہیں جوش پہ فصل بہاری ہے