اب میں ہوں آپ ایک تماشا بنا ہوا
گزرا یہ کون میری طرف دیکھتا ہوا
کیف غم فراق کی لذت جسے ملی
حاصل اسے وصال نہیں ہے تو کیا ہوا
خاشاک زندگی تو ملا اس کے ساتھ ساتھ
تیرا کرم کہ درد کا شعلہ عطا ہوا
در تک ترے خودی نے نہ آنے دیا جسے
آنکھوں سے اشک بن کے وہ سجدہ ادا ہوا
شیرینی حیات کی لذت میں ہے کمی
کچھ اس میں زہر غم نہ اگر ہو ملا ہوا
کچھ کم نہیں ہوں لذت فرقت سے فیض یاب
حاصل اگر وصال نہیں ہے تو کیا ہوا
اب اس مقام پر ہے مری زندگی کہ ہے
ہر دوست ایک ناصح مشفق بنا ہوا
یہ بھی ذرا خیال رہے عازم حرم
رستے میں بت کدے کا بھی در ہے کھلا ہوا
وہ قد ناز اور وہ چہرے کا حسن و رنگ
جیسے ہو پھول شاخ پہ کوئی کھلا ہوا
پیش نظر تھی منزل جاناں کی جستجو
اور پھر رہا ہوں اپنا پتہ ڈھونڈتا ہوا
کہہ کر تمام رات غزل صبح کے قریب
آزادؔ مثل شمع سحر ہوں بجھا ہوا
غزل
اب میں ہوں آپ ایک تماشا بنا ہوا
جگن ناتھ آزادؔ