EN हिंदी
اب کیا ملیں حسینوں سے ہم گوشہ گیر ہیں | شیح شیری
ab kya milen hasinon se hum gosha-gir hain

غزل

اب کیا ملیں حسینوں سے ہم گوشہ گیر ہیں

میر طاہر علی طاہر فرخ آبادی

;

اب کیا ملیں حسینوں سے ہم گوشہ گیر ہیں
غارت گروں نے لوٹ لیا ہے فقیر ہیں

خالق بچائے زہرہ جبینوں کی چاہ سے
سنتے ہیں دو فرشتے ابھی تک اسیر ہیں

چار آنکھیں ہم نے کی تو ہیں غصہ نہ کیجیے
سائل نہیں فقیر نہیں راہگیر ہیں

در پر تمہارے بیٹھے ہیں سر پر ہے آفتاب
ہم خاکسار مالک تاج و سریر ہیں

وہ بھی تو روئیں اے اثر گریہ ایک دن
جن کی نگاہ میں مرے آنسو حقیر ہیں

کہہ دیں گے صاف صاف وہ دیکھیں تو آئنہ
یہ مانگ ہے لکیر ہم اس پر فقیر ہیں

نظروں سے کیا گرائیں گے طاہرؔ عدو مجھے
فضل خدا سے دست خدا دست گیر ہیں