EN हिंदी
اب کوئی سلسلہ نہیں باقی | شیح شیری
ab koi silsila nahin baqi

غزل

اب کوئی سلسلہ نہیں باقی

سیا سچدیو

;

اب کوئی سلسلہ نہیں باقی
دوستوں میں وفا نہیں باقی

زندگی تجھ پہ رائے کیا دو میں
اب کوئی تبصرہ نہیں باقی

وقت بے وقت کیوں برستے ہیں
بادلوں میں حیا نہیں باقی

زندگی تجھ سے اور لڑنے کا
مجھ میں اب حوصلہ نہیں باقی

رنج، الجھن، گھٹن، پریشانی
روگ کوئی رہا نہیں باقی

اپنی منزل کو چھو لیا میں نے
کوئی مقصد رہا نہیں باقی

میرے دشمن کے قلب میں فی الوقت
جنگ کا حوصلہ نہیں باقی

جیت رکھا ہے میں نے اپنے کو
مجھ میں کوئی انا نہیں باقی

اشک آنکھوں میں آ گئے ہیں سیاؔ
ضبط دل پر ذرا نہیں باقی