اب کوئی حجت نہیں اقرار کو انکار سے
عشق نے پالی فراغت حسن کی سرکار سے
اس ادائے بے نیازی پر ہے حیراں آنکھ بھی
آ گئے دل میں مگر پوچھا نہ پہرے دار سے
گرد آلودہ تھیں آنکھیں انتظار دوست میں
دھل رہی ہیں وصل میں وہ آنسوؤں کی دھار سے
واپسی ہوگی وہیں پر اس کا اندازہ نہ تھا
ناچتا ننگا چلا تھا آدمی جب غار سے
لفظ میں جادو نہیں ہے اک حقیقت ہے جناب
ہم حفاظت کر رہے ہیں کاغذی تلوار سے
نکہت و شادابئ گل ہے چمن کا امتیاز
آدمی پہچانا جاتا ہے فقط کردار سے
مجھ سے اس کی بد گمانی گرچہ پوشیدہ نہیں
بات بنتی ہے اثرؔ کی باہمی گفتار سے

غزل
اب کوئی حجت نہیں اقرار کو انکار سے
مرغوب اثر فاطمی