اب کوئی آرزو نہیں ذوق پیام کے سوا
اب کوئی جستجو نہیں شوق سلام کے سوا
کوئی شریک غم نہیں اب تری یاد کے بغیر
کوئی انیس دل نہیں اب ترے نام کے سوا
تیری نگاہ مست سے مجھ پہ یہ راز کھل گیا
اور بھی گردشیں ہیں کچھ گردش جام کے سوا
خواہش آرزو سہی حاصل زندگی مگر
حاصل آرزو ہے کیا سوز مدام کے سوا
آہ کوئی نہ کر سکا چارۂ تلخئ فراق
نالۂ صبح کے بغیر گریۂ شام کے سوا
رنگ بہار پر نہ بھول بوئے چمن سے در گذر
یہ بھی ہیں خوش نما فریب دانہ و دام کے سوا
مر کے حیات جاوداں عشق کو مل گئی حفیظؔ
جی کے ہوس کو کیا ملا مرگ دوام کے سوا
غزل
اب کوئی آرزو نہیں ذوق پیام کے سوا
حفیظ ہوشیارپوری